اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے حالیہ اجلاس میں مشہور مذہبی مقرر اور یوٹیوبر انجنیئر محمد علی مرزا کے بیانات کو کفر پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے متعدد جملے شرعی حدود کے خلاف ہیں اور وہ تعزیری سزا کے مستحق ہیں۔
کونسل کا موقف
کونسل نے وضاحت کی کہ دین اسلام میں کفر آمیز جملوں کو صرف تعلیمی، تحقیقی یا باطل کی تردید کے مقصد سے بیان کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن انجنیئر مرزا نے یہ الفاظ بار بار دہرا کر ایسی روش اپنائی جو اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اس بنا پر انہیں سخت گناہ کا مرتکب قرار دیا گیا۔
موجودہ صورتحال
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ جہلم پولیس نے انجنیئر مرزا کو اندیشہ نقص امن کے تحت گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ان کے خلاف توہینِ رسالت کا مقدمہ بھی درج کر لیا گیا۔ فی الحال وہ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید ہیں اور ان کا مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔
انجنیئر محمد علی مرزا کون ہیں؟
-
مرزا محمد علی کا تعلق جہلم، پنجاب سے ہے اور وہ پیشے کے اعتبار سے مکینیکل انجنیئر ہیں۔
-
وہ قرآن و سنت ریسرچ اکیڈمی کے بانی ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مذہبی لیکچرز دے رہے ہیں۔
-
یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز پر ان کے ہزاروں حامی موجود ہیں جو ان کے خیالات کو عام کرتے ہیں۔
متنازع خیالات اور مخالفت
انجنیئر مرزا نے خود کو غیر فرقہ وارانہ مسلمان قرار دیا، لیکن وہ تقریباً ہر بڑے مسلک پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے یہی خیالات انہیں پاکستان کے بڑے علما کے خلاف لے آئے، جس کے نتیجے میں ان پر توہینِ مذہب اور نفرت انگیز تقاریر کے کئی مقدمات درج ہوئے۔
ماضی کے تنازعات
-
2020 میں توہین آمیز ریمارکس پر گرفتاری، بعد میں رہائی۔
-
2023 میں توہینِ مذہب کا کیس، بعد ازاں خارج۔
-
2025 میں دوبارہ گرفتاری، جب ان کے بیانات پر مختلف مسالک کے علما نے باضابطہ درخواست دی۔
نتیجہ
اسلامی نظریاتی کونسل کے حالیہ فیصلے نے ایک بار پھر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی اور مذہبی احترام کے درمیان حد کہاں کھینچی جائے۔ مرزا کے حامی انہیں اصلاحی آواز قرار دیتے ہیں، جبکہ مخالفین کے نزدیک وہ شدید گمراہی پھیلا رہے ہیں۔